GiveupRiba.com – An Anti Riba Struggle
یہ بات ایک اٹل حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں کہ پاکستان اسلام کے نام اور کلمہ طیبہ کے اعلان و اقرار پر وجود میں آیا۔ لاکھوں جانوں کی قربانی اور ہزاروں عصمتیں لٹوانے کے بعد قائم ہونے والے ملک میں اسلامی شریعت کے علاوہ کسی دوسرے قانون کی بالادستی نہ عقلاً قابل تسلیم ہے اور نہ شرعاً قابل قبول۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کا پاکستان کے لیے ایک اسلامی فلاحی مملکت کا وژن اُن کے دسیوں خطابات سے واضح ہوجاتاہے جو انہوں نے تحریک پاکستان کے لیے جدوجہد کے دوران اور بعد میں ارشاد فرمائے۔
1948ء میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قائد کایہ بیان تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ انہوں نے فرمایا:
جناب قائد کا یہ بیان ایک نوع کا پالیسی سٹیٹمنٹ ہے جو اپنے مفہوم اور مدعا میں بالکل واضح اور غیر مبہم ہے۔ پاکستان کے مرکزی مالیاتی ادارہ کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے اس اصولی موقف کا اظہار اس امر کا غماز ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی آئینی تاریخ اور سود کی حرمت کا مسئلہ بالکل آغاز ہی سے پہلو بہ پہلو رہا ہے۔
1956 کے آئین اور 1962میں تشکیل پائے جانے والے آئین‘دونوں میں صاف اور غیر مبہم طور پر یہ بات درج تھی کہ حکومت ِ پاکستان نظامِ معیشت سے سود کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے بھر پور کوشش کرے گی۔ اس کے بعد 1973کے آئین‘ جو کہ ہماری تاریخ کا متفقہ آئین اور دستور مانا جاتا ہے ‘کے آرٹیکل 38کی ذیلی دفعہ F میں کہا گیا ہےـــ’’حکومت جس قدر جلد ممکن ہوسکے ربا کو ختم کرے گی۔‘‘
1962میں آئین کی تشکیل کے علاوہ قومی سطح پر اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے ایک دستوری ادارہ قائم کیا گیا جس میں تمام مسالک اور مکاتب ِفکر سے تعلق رکھنے والے مستند علماء کرام کو نمائند گی دی گئی۔ اس ادارے کے فرضِ منصبی میں یہ بات شامل کی گئی کہ یہ ادارہ ایسی تجاویز مرتب کرے گاجن پر عمل کر کے پاکستانی عوام کی زندگیوں کو اسلامی ڈھانچے میں ڈھالا جاسکے ۔
چنانچہ 3دسمبر 1969ء کو اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اپنی ایک رپورٹ میں اتفاقِ رائے سے اس امر کا اظہار کیا کہ ’’ربا اپنی ہر صورت میں حرام ہے اور شرح سود کی کمی بیشی سود کی حرمت پر اثر انداز نہیں ہوتی‘‘۔ مزید یہ کہ موجودہ بینکاری نظام کے تحت افراد ‘ اداروں اور حکومتوں کے درمیان قرضوں اور کاروباری لین دین میں اصل رقم پر جو اضافہ یا بڑھوتری لی یا دی جاتی ہے وہ ربا کی تعریف میں آتی ہے۔ سیونگ سرٹیفکیٹ میں جو اضافہ دیا جاتا ہے وہ بھی سود میں شامل ہے۔ پرویڈنٹ فنڈ اور پوسٹل بیمہ زندگی وغیرہ میں جو سود دیا جاتا ہے وہ بھی ربا میں شامل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ صوبوں ‘ مقامی اداروں اور سرکاری ملازمین کو دیے گئے قرضوں پر اضافہ بھی سود ہی کی ایک قسم ہے ‘ لہٰذا یہ تمام صورتیں حرام اور ممنوع ہیں۔
کونسل کی مذکورہ بالا رپورٹ کے 8سال بعد 1977ء میں صدرِ پاکستان جنر ل محمد ضیاء الحق نے کونسل کو ہدایت کی کہ کونسل ضروری تحقیق اور تفتیش کے بعد ایسے طریقے بھی تجویز کرے جن کو اپنا کر سود جیسی لعنت کا خاتمہ کیا جاسکے۔ چنانچہ کونسل نے بینک ماہرین‘ اقتصادیات کے ماہرین اور علماء سے طویل گفتگو اور مباحث کے بعد اور عالمی سطح پر اس مسئلے کی پیچیدگیوں کے گہرے مطالعے کے بعد 25جون 1980ء کو اپنی رپورٹ صدرِ پاکستان کے سامنے پیش کردی۔ اس رپورٹ میں سود کو ختم کر کے اس کے متبادل نظام کی جملہ تفصیلات درج تھیں اور کہا گیا تھا کہ ان تجاویز پر عمل درآمد سے دو سال کے اند ر اندر پاکستان کی معیشت سود سے مکمل طور پر پاک ہو سکتی ہے۔
اس رپورٹ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب کی کنگ عبدا لعزیز یونیورسٹی جدہ نے اس کا عربی زبان میں ترجمہ کر کے اپنی حکومت ‘ اہل علم اور عوام کے استفادے کے لیے شائع کیا۔ لیکن قابل ِ افسوس بات یہ ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے ملک کی افسر شاہی نے اس رپورٹ پر عمل درآمد کے ضمن میں سنجیدہ کوششیں نہیں کیں اور کچھ نیم دلانہ انداز میں اور بہت ہی محدود پیمانے پر مشارکہ ‘ مضاربہ‘مرابحہ اور بیع مؤجل ایسے انداز سے متعارف کروائیں کہ خاطر خواہ نتیجہ اور خیر برآمد نہ ہوسکا۔ چنانچہ کونسل نے ایک اور revised report تیار کی جن میں ان الفاظ میں تنبیہہ اور اظہارِ افسوس کیا گیا کہ ’’کونسل نے 1980-81 میں کیے جانے والے ان اقدامات کا جائزہ لیا جو حکومت نے اسلامی نظامِ معیشت کے نفاذ کے سلسلے میں انجام دیے ہیں‘ ان میں خاتمہ سودکے لیے کیے جانے والے اقدامات ان سفارشات کے بالکل برعکس ہیں جو کونسل نے تجویز کیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حکومت نے وہ طریقہ اختیار کیا جو مقصد کو فوت کرنے کا سبب بن گیا۔‘‘
کونسل کی تنبیہات کا حکومت ِ وقت پر جب کوئی اثر نہ ہوا تو 1990میں ایک پاکستانی محمود الرحمن فیصل نے وفاقی شرعی عدالت‘ جو کہ اسلامی قوانین کے مطابق اور اسلامی احکام کے تحت فیصلہ دینے کے لیے وجود میں لائی گئی تھی ‘ میں ایک پٹیشن نمبر 30/1داخل کی اور عدالت سے استدعا کی کہ رائج الوقت سودی نظامِ معیشت کو غیر اسلامی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کی جائے اور حکومت ِ وقت کو ہدایت کی جائے کہ پاکستان کے معاشی نظام سے سود جیسی لعنت کا خاتمہ کیا جائے۔ وفاقی شرعی عدالت نے اس کیس اور اسی سے ملتے جلتے 114دیگر کیسز کی مشترک سماعت کی۔ دورانِ سماعت بینکرز ‘ اکانومسٹس ‘ حکومتی نمائندوں اور علماء کو تفصیلی طور پر سنا اور دقیق بحثیں کیں اور تحریر ی اور زبانی بیانات حاصل کیے اور اکتوبر 1991میں 157صفحات پر مشتمل اپنا تاریخی فیصلہ سنایا۔ اُس وقت کی وفاقی شرعی عدالت جسٹس تنزیل الرحمن صاحب بطور چیف جسٹس‘ جسٹس فدامحمد خان صاحب اور جسٹس عبید اللہ خان صاحب پر مشتمل تھی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں نہ صرف یہ کہ سود کی ایسی تعریف متعین کی جسے معیار بنا کر مروّجہ نظامِ معیشت میں پائے جانے والے سودی معاملات اور آئین اور دستور میں مذکور سودی دفعات کا جائزہ لیا جاسکتا تھا‘ بلکہ رائج تمام سودی قوانین (22قوانین) کا جائزہ لے کر بینکنگ سمیت تمام سودی لین دین کو حرام قرار دیا اور وفاقی حکومت اور تمام صوبوں سے بھی کہا کہ وہ 30جون 1992ء تک متعلقہ قوانین میں تبدیلی کرلیں اور یہ بھی کہ یکم جولائی 1992ء سے تمام سودی قوانین غیر آئینی ہوجائیں گے اور تمام سودی کاروبار غیر اسلامی ہونے کی بنا پر ممنوع قرار پائے گا۔
وفاقی شرعی عدالت کے مذکورہ بالا فیصلے کو عوامی سطح پر زبر دست پذیرائی ملی اور یہ امید پیدا ہوگئی کہ شاید پاکستان کے قیام کے 45سال بعد اب ہمارا معاشی قبلہ درست ہوجائے گااور عوام کو سود جیسے استحصالی اور ظالمانہ ہتھکنڈے سے نجات مل جائے گی۔ لیکن دوسری طرف سود خوروں اور بینکوںکو فکر لاحق ہوگئی کہ ان کا پھیلایا ہوا سودی قرضوں کا جال کہیں کمزور نہ پڑ جائے اور حکومت کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ کہیں بین الاقوامی سطح پر قرضوں کے حصول میں مشکلات نہ پیدا ہو جائیں… اور یہ بھی کہ کہیں تجارتی سرگرمیاںموقوف نہ ہوجائیں۔ چنانچہ 30جون کے آنے سے پہلے پہلے مالیاتی اداروں ‘ بینکوں اور بعض افراد نے سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بینچ میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کر دیں۔
یہ اپیلیں فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ بن گئیں اور سات سال تک سرد خانے میں پڑی رہیں۔ بالآخر 1999کے اوائل میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک شریعت اپیلیٹ بینچ تشکیل دیا گیا جس نے کئی ماہ تک مسلسل ان اپیلوں کی سماعت کی۔ پانچ رکنی اس بینچ میں جناب جسٹس خلیل الرحمن خان بطور چیئر مین شریک تھے‘ جبکہ جناب جسٹس وجیہہ الدین ‘ جناب جسٹس منیر اے شیخ‘ جناب جسٹس مفتی مولانا تقی عثمانی اورجناب جسٹس ڈاکٹر محمود احمد غازی بطور ممبر شامل تھے۔ معزز عدالت نے سماعت کے دوران مقدمہ میں زیرِ بحث آنے والے اہم فقہی‘ معاشی‘ معاشرتی‘ قانونی اور آئینی ایشوز پر رہنمائی حاصل کرنے کے لیے فریقین کے وکلاء حضرات کے علاوہ ماہرین علم و فن سے بھی اپیل کی کہ وہ زیرِ بحث مسئلہ کے حوالے سے عدالت کی معاونت کریں۔ چنانچہ پاکستان سمیت اسلامی دنیا کے متعدد نامور محققین اور قانون دان حضرات نے فاضل عدالت کو assist کرتے ہوئے اپنی آراء اور تجاویز سے تحریری طور پراور زبانی مستفید کیا‘ اور جدید و قدیم معاشی کتب و جرائد کے بے بہا ذخیرے میں سے اہم اقتباسات کی نقول عدالت کے ریکارڈ پر لائی گئیں۔
اس سارے مواد کی چھان پھٹک اور علماء اور وکلاء کی بحثوں کی سماعت کرنے کے بعد سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بینچ نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو عمومی طور پر درست قرار دیتے ہوئے جدید بینکاری سمیت تمام دیگر سودی قوانین کو اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ممنوع اور حرام قرار دے دیا اور حکومت ِ وقت کو مزید مہلت دیتے ہوئے ہدایت جاری کی کہ وہ جون 2001تک تمام غیراسلامی قوانین کو نئے قوانین سے بدل کر بینکنگ سمیت دیگر معاشی معالات کو سود سے پاک کردے۔
شریعت اپیلیٹ بینچ کا یہ فیصلہ ایوان ہائے اقتدار و طبقہ ہائے استحصال کے لیے ایک شمشیر برہنہ کی صورت اختیار کرگیااور اُن تمام مفاد یافتہ طبقات نے یک زبان اعلیٰ عدالت سے ’’دادرسی‘‘ کے لیے رجوع کیا جن کے مفادات پر حرف آنے کا امکان پیدا ہوگیا تھا۔ چنانچہ جون 2001 ء آنے سے پہلے پہلے حکومت نے ایک درخواست شریعت بینچ کے سامنے دائر کی جس میں فاضل عدالت سے درخواست کی گئی تھی کہ سودی نظام کو ختم کرنے کے لیے مزید دو سال کی مہلت دی جائے۔ بظاہر یہ درخواست حکم امتناعی کی عرضی تھی جو جون2001ء سے پہلے ہی UBLکے ذریعے داخلِ دفتر کروائی گئی تھی۔ چنانچہ اس عرضی کی بنیاد پر عدالت نے درخواست منظور کرتے ہوئے دو سال کی بجائے ایک سال کی مہلت دی اور ہدایت کی کہ جون2002ء تک مطلوبہ آئینی و انتظامی اقدامات مکمل کرلیے جائیں۔ ایمانداری کا تقاضا تو یہ تھا کہ حکومت ِ وقت اپنی استدعا پر حاصل ہونے والی اس مہلت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے خلوصِ نیت کے ساتھ قوانین کی تبدیلی کا کام مکمل کرتی۔ لیکن عملاً کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ کی گئی بلکہ حسبِ معمول سود کی بنیاد پر نئی سکیموں کا اجراء اور نئے قرضے حاصل کرنے کا اہتمام کیا جاتا رہا۔
جب عدالت کی دی ہوئی مہلت ختم ہونے کو آئی تو UBLکی جانب سے اب نظر ثانی کی ایک درخواست عدالت میں داخل کی گئی۔ اس دوران ایک بڑاواقعہ یہ رونما ہوچکا تھا کہ PCO پر حلف نہ اٹھانے کی بنا پر جسٹس خلیل الرحمن خان اور جسٹس وجیہہ الدین احمد ریٹائیر کردیے گئے۔۔۔ ‘ جسٹس محمود احمد غازی بھی ایک اور حکومتی عہدے پر فائزہونے کی بنا پر شریعت اپیلیٹ بینچ کا حصہ نہ رہے۔ صرف جسٹس منیر اے شیخ اور جسٹس مفتی مولانا محمدتقی عثمانی بطورِ فاضل جج بینچ کا حصہ باقی رہ گئے۔ لیکن سماعت سے متصلاً قبل ایک بڑا ’’دھماکہ‘‘یہ کیا گیا کہ جسٹس مولانا تقی عثمانی‘ جو سود سے متعلق اپیل کا فیصلہ لکھنے والے ججوں میں شامل تھے اور اپنی علمی و دینی وجاہت کے اعتبار سے باقی تمام ججز میں نمایاں حیثیت رکھتے تھے‘ انہیں بغیر کوئی وجہ بتائے اپیلیٹ بینچ سے فارغ کردیا گیا‘ا ور علماء نشستوں پر نئے بینچ میں جناب علامہ خالد محمود اور جناب رشید احمد جالندھری کو شامل کرلیا گیا۔ اس طرح نظر ثانی کی درخواست کی سماعت جس بینچ نے کی اُس میں سابقہ بینچ کے شرکاء میں سے صرف جسٹس منیر اے شیخ باقی رہ گئے اور باقی تمام حضرات کی نئے ججز کے طور پر تقرری عمل میں لائی گئی۔ چنانچہ اس نئے بینچ میں جسٹس شیخ ریاض احمد کو بطور چیئر مین منتخب کیا گیا۔ جبکہ جسٹس قاضی محمدفاروق‘ جسٹس ڈاکٹر خالد محموداور جسٹس رشید احمد جالندھری کو اس بینچ کا حصہ بنا دیا گیا۔
اس نئے تشکیل کیے گئے شریعت اپیلیٹ بینچ میں ہونے والی کارروائی کا خلاصہ اور حاصل یہ ہے کہ نظر ثانی کی اس درخواست پر UBLکے وکیل راجہ محمد اکرم نے 12جون2002ء کو بحث کا آغاز کیا۔ راجہ اکرم نے قرآنِ مجید کی آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ دلیل پیش کی کہ جدید بینکنگ کا نظام ’’بیع‘‘ کے وسیع تر مفہوم پر پورا اترتا ہے‘ اس لیے بینک انٹرسٹ کو ربا قرار دے کر ممنوع کردینا درست نہیں۔ گویا یہ بات از سرِ نو طے کی جائے کہ بینک انٹرسٹ ربا ہے یا نہیں۔۔۔؟ نیز انہوں نے یہ موقف بھی اختیار کیا کہ اسلام کے نزدیک سود کی صرف ظالمانہ شرح ہی ناجائز ہے اور سمپل انٹرسٹ اُن کے بقول ظالمانہ نہیں۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ سود کی تعلیمات قانونی درجے کی نہیں ہیں بلکہ اخلاقی درجے کی ہیں۔ اس لیے سود کی ممانعت بذریعہ قانون نافذ کرنا انصاف کے مطابق نہیں۔
حکومت پاکستان کے وکیل رضا کاظم نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ حکومت UBLکی درخواست اور معروضات سے پورا اتفاق کرتی ہے۔ شریعت اپیلیٹ بینچ اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلو ں پر عمل درآمد ناممکن ہے۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ربا اور سود کے امتناع سے ملک میں معاشی انارکی پھیلے گی اور تمام کاروبارِ معیشت درہم برہم ہوجائے گا۔ اس لیے انہوں نے سابقہ فیصلے کی تنسیخ کا مطالبہ کیا اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ حکومت نے غیر سودی نظام نافذ کرنے کے سلسلے میں 53اسلامی ممالک سے رابطہ کیا ہے‘ لیکن تمام ممالک نے یہی مشورہ دیا ہے کہ سود سے پاک بینکنگ کا نظام ناقابل ِ عمل ہے ۔۔۔بلکہ یہ بھی کہ یہ معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا ۔۔۔ اور اس طرح ہم بین الاقوامی برادری سے کٹ جائیں گے۔۔۔ اور ہمارا زندہ رہنا مشکل ہوجائے گا۔
اس مرحلے پر حکومتی وکیل نے اپنے ساتھی ڈاکٹر ریاض الحسن گیلانی کو بھی عدالت کے سامنے اپنی معروضات اور دلائل دینے کے لیے پیش کیا۔ ڈاکٹر ریاض الحسن گیلانی نے اپنے مخصوص انداز میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ سابقہ بینچ نے قرآن و سنت کے متعدد احکامات سے انحراف کیا ہے۔ امام ابو حنیفہؒ اور دیگر فقہاء کے نظریات کو مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کے تمام شہریوں کو‘ چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم‘ ایک ہی لاٹھی سے ہانکا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے دعووں کے حق میں قرآن و سنت اور امام ابوحنیفہ کے اقوال سے واضح ثبوت فراہم نہیں کیے‘ تاہم دعوے اس اذعان کے ساتھ کیے کہ گویا ۔۔۔۔ جو کہا ہے بالکل درست ہے۔
ڈاکٹر ریاض الحسن گیلانی کے بعد اٹارنی جنرل آف پاکستان مخدوم علی خان نے بھی عدالت کے سامنے سابقہ فیصلوں پر تنقید کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپیلیٹ بینچ نے سماعت کرتے ہوئے آئین ِ پاکستان کے آرٹیکل 29،30(2)،38(F)، 81(C)، 121(C)میں بیان کیے گئے ضوابط کے مطابق نہ تو اپنے اختیاراتِ سماعت کا خیال رکھا اور نہ ہی اس بات کا کہ وفاقی شرعی عدالت یا شریعت اپیلیٹ بینچ کے سامنے یہ مقدمات دائر بھی کیے جاسکتے ہیں یا نہیں۔
دوسری طرف سے جناب محمد اسمٰعیل قریشی ‘جناب جسٹس (ریٹائرڈ) خضر حیات اور جناب حشمت علی حبیب نے بھی عدالت کے سامنے دلائل پیش کیے اور انہوں نے موجودہ بینچ کی تشکیل پر اعتراض کرتے ہوئے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ بینچ آئین کے ضوابط کے مطابق تشکیل نہیں دیا گیا۔ نیز یہ دلیل بھی پیش کی گئی کہ نظر ثانی کے معاملے میں عدالت کے اختیارات بہت محدود ہوتے ہیں۔ اور جن قوانین ‘ ضوابط اور حقائق کا جائزہ فیصلہ دینے والی عدالت عظمیٰ تفصیل سے لے چکی ہو انہیں نظرثانی کی آڑ میں دوبارہ نہیں اٹھایا جاتا۔ جبکہ مخالف وکلاء نے جن امور کو نظر ثانی کی بنیاد بنایا ہے ان سب پر تفصیل سے بحث و سماعت کرنے کے بعد ہی سابقہ فیصلے صادر کیے گئے تھے۔ یہ دلیل بھی پیش کی گئی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر جزوی عمل ہوچکا ہے‘ اب قانون اس پر نظر ثانی کی اجازت نہیں دیتا۔
چند دن کی مختصر سماعت کے بعد نظرثانی کے لیے تشکیل کردہ بینچ نے انتہائی عجلت میں 24جون 2002ء کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے شریعت اپیلیٹ بینچ کا 23دسمبر 1999کا فیصلہ اور وفاقی شرعی عدالت کا 14نومبر 1991کا فیصلہ بیک جنبش قلم منسوخ کردیا اور مقدمے کو ازسرِ نو سماعت کے لیے دوبارہ وفاقی شرعی عدالت میں بھیجنے کے احکامات صادر کردیے۔ اس طرح اس عدالت نے سابقہ نصف صدی کی طویل کوششوں اور جاں گسل محنتوں کو صفر سے ضرب دے کر معاملہ وہاں پہنچا دیا کہ گویا ہنوز روزِ اوّل است۔